از – مجلس العلماء جنوبی افریقہ (ترجمہ)
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا،
“جب امانت تباہ ہو جائے تو قیامت کا انتظار کرو” کسی نے پوچھا – ‘امانت کیسے تباہ ہو گی؟’ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، جب امور (امانت اور اہمیت کے) نااہلوں کے سپرد کیے جائیں گے۔ پھر قیامت کا انتظار کرو۔”
“جب علم، دین کے علاوہ کسی اور مقصد کے لیے پڑھایا جائے۔ جب مرد اپنی بیوی کی اطاعت کرے؛ جب کوئی آدمی اپنی ماں کے ساتھ بد سلوکی کرے، جب وہ اپنے دوست کو اپنے قریب کرے اور اپنے باپ سے دوری اختیار کرے۔ جب مسجدوں میں آوازیں بلند ہوں اور جب کوئی جماعت اپنے بدمعاش (ظالم و جابر) کو رہنما (حکمران وغیرہ) مقرر کرے تو ایسے وقت میں سرخ ہواؤں (طوفان وغیرہ)؛ زلزلے، زمین (لوگوں اور عمارتیں کو) نکلنے، مسخ (چہروں کا بندر اور خنزیر کی طرح ہو جانا) اور (پتھروں کی) بارش کا انتظار کرنا۔”
حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا،
“بے شک زلزلہ بہت زیادہ (بے انتہا و کثرت) زنا کا نتیجہ ہے اور قحط سالی بری عدالتیں اور ظالم حکمرانوں کی وجہ سے ہے۔‘‘
حدیث شریف کے مطابق خشک سالی (قحط سالی) وغیرہ کے اسباب اور بھی بیان ہوئے ہیں۔
ابن مروان (رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے زمانے میں زمین لرز اٹھی۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا ہاتھ زمین پر رکھا اور فرمایا, ساکن بن (ٹہر) جاؤ !۔
پھر (صحابہ (رضی اللہ عنہم) سے مخاطب ہو کر) فرمایا، اے لوگو ! بے شک تمہارے رب تمہیں ڈانٹ (سرزنش کر) رہے ہیں، لہزا تنبیہ پر دھیان دو۔
پھر عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) کے زمانے میں زلزلہ آیا۔ ان ہوں نے (لوگوں سے) کہا،
“اے لوگوں ! اس زلزلے کی وجہ صرف وہ شے ہے جو تم نے کیا ہے (یعنی گناہ)۔ میں اس ذات کی قسم کھاتا ہوں جس کے اختیار میں میری جان ہے ! اگر دوبارہ ایسا ہوا تو میں آپ کے ساتھ کبھی نہیں رہوں گا۔‘‘
اگرچہ زلزلے بلاشبہ اللہ عزوجل کا عذاب ہیں، لیکن اس میں مارے جانے والے سچے اور پرہیزگار مسلمانوں کے لیے یہ باعث رحمت ہے۔ وہ شہادت کا درجہ پاتے ہیں۔ لیکن زلزلوں کی بنیادی وجہ اس بڑی اکثریت کا گناہ اور سرکشی ہے جس نے بغیر کسی پچھتاوے کے تمام حدوں کو پار کر لیا ہے۔ ان کا توبہ کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ درحقیقت انہوں نے اپنی ایمان کو نہ صرف گناہ کے ارتکاب سے مٹا دیا ہے بلکہ یہ یقین بھی کیا ہے کہ ان کے برے اعمال اور کفریہ عقیدے درست اور قابل قبول ہیں۔
جب آبادی کا فسق، فجور اور کفر دھماکہ خیز حد تک پہنچ جاتا ہے (یعنی تمام حدود و قیود سے آزاد ہو جاتا ہے) تو اللہ عزوجل کا غضب نازل ہوتا ہے۔ ہمیں متنبہ کرتے ہوئے قرآن مجید کا ارشاد ہے،”ہم ان کو یقیناً عذابِ ادنیٰ (چھوٹے عذاب) کا مزہ چکھائیں گے نہ کہ عذابِ اکبر (بڑے عذاب) کا، شاید وہ (راہ راستہ پر) لوٹ آئیں۔”
جب وہ ناقابلِ برداشت مشکلات اور مصائب کی صورت میں عذابِ ادنیٰ (چھوٹے عذاب) پر توجہ دینے میں ناکام ہوجاتے ہیں تو پھر عذابِ اکبر (بڑے عذاب) کا حکم جائز ہو جاتا ہے۔ اور یہ وہی ہے جو ہم اس وقت ترکی اور شام میں دیکھ رہے ہیں۔
١٩ رجب ١٤٤٤ – ١٠ فروری ٢٠٢٣